یہ کیا ہو رہا ھے ساتھ اپنے پیار میں
کہ دل اپنا قابو میں نہیں اختیار میں
باز کیوں نہین آتا کوئی بیوفائی سے اپنی؟
کیوںکر کمی لا تا ھے کوئی اپنے پیار میں؟
دشمنی جب ھے نہیں پھر کیوں بگڑتا ھے؟
بات کیوں کرتا نہیں لطف و قرار میں؟
ہر بار نیا بہانہ آ خر کب تک چلے گا؟
آہ! کب تک جیوں گا زندگی انتظار میں؟
جھوٹے پر خدا کی لعنت یار سچ کہتا ہوں۔
جنوں کی خد تک کرتا ہوں تجھسے پیار میں
مانا کہ تجھ کو انکار ھے اپنی محبت سے۔
پر کوئی تو کارں پیش کرو اس تکرار میں۔
کہیں ایسا نہ ہو غم جدائی آزار بن جائے۔
واں ادھر روئے تو ادھر ہوں اشکبار میں۔
کیوں بے وفائی میں حد سے گذرتے ہو؟
کہیں خود رسوا ہو جائو اور شرم سار میں۔
اسد سراسر ظلم کیا ہم نے ساتھ اپنے۔
کہ دل تم کو دے دیا تمہارے اختیار میں۔