یہ کیسے سفر کا آغاز کر بیٹھے ہم
کسی کو دل میں آباد کر بیٹھے ہم
خود کو اسیر کر کے ذلفوں کا
سب کچھ برباد کر بیٹھے ہم
نہ وہ ملتا نہ ہم اداس ہوتے
اک حسی ہمسفر ہمراز کر بیٹھے ہم حسی
جب سے آیا ہے وہ زندگی میں
سب خوشیاں آزاد کر بیٹھے ہم
اس کا قرب بھی اپنے پاس نہیں اب
تڑپ اس دل کی اپنی سزا کر بیٹھے ہم