یہ کیوں اتر گئے دریا محبتوں کے یہاں
یہ کیوں اجڑ گئے گلشن قرابتوں کے یہاں
لرز رہیں ہیں کیوں کاشانئہ وفا کے ستون
یہ کس طرح کے ہیں طوفان شدتوں کے یہاں
سکوت دشت سے لبریز گھر یہ شیشوں کے
یہ کس کمال کے ساماں ہیں عشرتوں کے یہاں
شب سیاہ تھی محتاج کل تلک جن کی
چراغ بجھ گئے ایسے تو مدتوں کے یہاں
کسی چمن کی اداسی خزاں کا روپ نہیں
نقوش ثبت ہیں موسم پہ جدتوں کے یہاں
ہر ایک بول میں لمحوں کی ہے مٹھاس تو کیا
ہر ایک سانس میں شعلے ہیں نفرتوں کے یہاں
گھنے شجر کو ہے سائے کی جستجو ہر دم
عجیب طور کے موسم ہیں چاہتوں کے یہاں