یہ ہجر کی راتیں عذاب لگتی ہیں
تیری یادیں اک ادھورا خواب لگتی ہیں
بجھتی نہیں مگر تڑپتی رہتی ہے
یہ انتظار کی شمع بے تاب لگتی ہے
اب یہ زندگی روٹھ کر مجھ سے
درد بھرے لفظوں کا کتاب لگتی ہے
مجھ کو مے پینے کی اب چاہ نہیں
تیری آنکھیں شراب لگتی ہیں
دل کے آںگن میں ہر سو تاریکی ہے
تمام صبحیں اوڑھے حجاب لگتی ہیں
یہ بے وفائی کا سب کہانیاں تو
میرے سوالوں کے جواب لگتی ہیں