یہ ہو بھی سکتا ہے جب اس پہ اعتبار کروں
میں اپنی ذات کو خود سے الگ شمار کروں
نگاہ ناز میں قصے نہیں وفا کے میاں
جو دل کی دھڑکن کو پھر سے بیقرار کروں
جو اس کی راہ محبت پہ میرا نام ہے کند
جہانِ دل کو یہاں کیسے داغدار کروں
"میں صرف سایہ ہوں اپنا مگر یہ ضد ہے مجھے"
میں دشتِ آس میں بس تیرا انتظار کروں
وہ چھین سکتا نہیں جگ میں یہ وفا ئیں کیوں کہ
میں تو مر کر بھی یہاں اس پہ جاں نثار کروں
قدم قدم پہ ہیں اس کے لیے یہاں مقتل
یہ بات سچ ہے مگر کیسے آشکار کروں
ہر ایک پل ہی یہاں لوگ درد سہتے ہیں
ہر ایک آنکھ میں آنسو ہی میں شمار کروں
دیار غیر میں رہتے ہوئے یہاں وشمہ
میں اپنے آپ کو کس راہ میں شمار کروں