یہ ہوائیں مرے محبوب کی قاصد ہیں
Poet: maria riaz ghouri By: maria ghouri, haroonabadمرے شہر میں جو ہوائیں چل رہیں ہیں
یہ مرے شہر کی ہوائیں نہیں ہیں
یہ پردیسی ہوائیں ہیں
یہ ہوائیں کیسی وحشت ڈھا رہیں ہیں
یہ ہوائیں خاموش دشت پھیلا رہیں ہیں
یہ ہوائیں قاصد لگ رہیں ہیں
دل نے کہا ذرا پوچھوں
ان ہواؤں سے
یہ کس شہر کی ہوائیں ہیں
یہ کس کا پیغام لائیں ہیں
ان ہواؤں میں جو خوشبو ہے
وہ جانی پہچانی ہے
یہ ہوائیں کیوں مرے ہی دریچوں میں شور کر رہیں ہیں
یہ ہوائیں کیوں دل پہ دستک دے رہیں ہیں
یہ ہوائیں کیوں مرے آنگن میں کوئی نوید لے
کر اتر رہیں ہیں
دل مخاطب ہوا ہواؤں سے
ہوائیں سماعتوں میں سرسراہٹ کر گئیں
مرے محبوب کا پیغام لے کر بٹ گئیں
ہواؤں نے مرے محبوب کا سلام دیا
ہواؤں نے مرے محبوب کا پیغام دیا
ہواؤں نے وصل کے لمحوں کا جام دیا
یہ ہوائیں مرے محبوب کی قاصد ہیں
ہوائیں محبوب کی حالت بتا رہیں ہیں
ہوائیں محبوب سے ملنے کی جسارت بڑھا رہیں ہیں
ہوائیں مجھے چھو رہیں ہیں
ہوائیں ساتھ لے جا مری خوشبو رہیں ہیں
دل نے کہا میں بھی
حال دل لکھ دو
محبوب کو جوابی پیغام لکھ دوں
دل کا سلام لکھ دوں
لکھ دیا
اے متاع جان
اے مری روح کے چین
اے خواہشوں کے ارمان
اے مرے بیتاب لمحوں کے قرار
اے مرے صبح و شام کے پیار
اے مری دھڑکنوں کے شمار
بن ترے نظارے دھواں لگتے ہیں
پھول بھی مرے آنگن میں کہاں کھلتے ہیں
ترے ہجر میں جل رہی ہوں
قندیل کی طرح پگھل رہی ہوں
وصل کی بارش دے دو
ہجر کے موسم واپس لے لو
مری اداس آنکھوں میں ترے ملن کے سپنے بے دھڑک آتے ہیں
ھر سپنے کو ہجر کے لمحے کھٹک جاتے ہیں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






