یہاں خود سے بڑا نہ ساجھے سایا
ہر شخص کو اپنے بھاگے بھایا
تیرے باغوں میں بہار جو آئی
عندلیب نے ہم کو گاکے سنایا
فریبی نظاروں کے پیچھے جو بھاگا
بڑے پھولوں سے زخم کھاکے آیا
اُس کی آشا میں اک سند رکھی تھی
نفیس عاجزی کو بھی گنواکے آیا
اب اپنے دروازے بند ہی کرلو
وہ وعدے مسافر بُھلاکے آیا
نازک سپنے ٹوٹنے سے پہلے ہی
میں اپنا تو دامن چھڑاکے آیا