جفا میں گزرے دنوں کا کوئی حساب نہیں
ہو جس میں درج مرا حال وہ کتاب نہیں
میں پیار سمجھوں اسے یا کہوں سزا کوئی
مرے جنون محبت پہ اب شباب نہیں
نبھے گا کیسے مراسم کا سلسلہ سوچیں
تو میری مانگ ہے میں تیرا انتخاب نہیں
تمھارے قرب کی حسرت کو کیا کروں آخر
کبھی نہ ایسے ملے پرسکوں جواب نہیں
تمھارے جانے سے جاتی ہیں میری نیندیں بھی
نشاط زیست کا رنگین کوئی خواب نہیں
بھلا سکوں گی نہ غم مے کدے میں بھی جا کر
تو سوچتی ہوں کہ پھر بے خودی کا باب نہیں
وہ بدگماں کہیں نالاں نہ مجھ سے ہو جائے
ہے اس سے آج نئی دل لگی کا خواب نہیں
اندھیرے جن کے ہیں ذہنوں میں خاک دیکھیں گے
پھر اس کے بعد نیا کوئی آفتاب نہیں