ہم کسی اور کو اور ہم کو ملا اور کوئی
Poet: ارشد ارشیؔ By: Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachiسب کو معلوم ہے ہوتا ہے رہا اور کوئی
جرم کس نے کیا سولی پہ چڑھا اور کوئی
عمر بھر چاہا جسے وہ نہ رہا اپنا اب
ہم کسی اور کو اور ہم کو ملا اور کوئی
کون آئے گا یہاں اس کو تسلی دینے
غمگسار اس کا نہیں تیرے سوا اور کوئی
لوگ ملتے ہیں حسیں آج بھی ہم کو لیکن
دل کو بھایا نہیں تیرے سوا اور کوئی
لوگ ہر روز ہی بستے ہیں اجڑ جاتے ہیں
تو بھی اب اپنی نئی دنیا بسا اور کوئی
اس کو پڑھنے سے نہیں ملتے بچھڑنے والے
اب وظیفہ بتا مجھ کو تو نیا اور کوئی
کب تلک ہوتا رہے گا تو پریشان ارشیؔ
اپنی آنکھوں میں نئے خواب سجا اور کوئی
رنگ باتوں کو دیا تو نے نیا اور کوئی
کیوں سمجھتا ہے مرے دل میں چھپا اور کوئی
ہم نے چاہت سے بلایا تھا اسے محفل میں
دیکھتے ہی رہے پھر ان کی ادا اور کوئی
تم جو چاہو تو سرِ عام دکھا دوں تم کو
بات یہ سچ ہے کہ ہے اس کی رضا اور کوئی
اس سے پہلے بھی کیا تو نے کیا وہ کم تھا
اب تماشا نہ دکھا مجھ کو نیا اور کوئی
جو مرے لوگ بچے ہیں اب انہیں رہنے دے
حوصلہ مجھ میں نہیں پھر ہو جدا اور کوئی
اس طرح بات بزرگوں سے کیا کرتے ہیں
جس طرح لے گیا ہو شرم حیا اور کوئی
زندگی ہو گئی دشوار یہاں چل ارشی
پھیلتی ہے یہاں اب پھر سے وبا اور کوئی
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






