اشک گرنے کو ہے تیار نہ کر
بس زیادہ مجھے بیزار نہ کر
سطح پر تیر رہے ہیں دن رات
نیند اک خواب کا ہے وار نہ کر
ان پرندوں کا پلٹ کر آنا
ایک تخیل سے انکار نہ کر
عکس بھی غیر ہے آئینہ بھی
یہ تحیر ہے کا اظہار نہ کر
ان دریچوں سے کہ جو تھے ہی نہیں
اک اداسی ہے کہ درنہ کر
دل نمودار ہوا ہے دل میں
آنکھ سے آنکھ کا اقرار نہ کر
اس کی آنکھوں کی خموشی وشمہ
ڈوبتے وقت سے بیزار نہ کر