الفتِ پیمبر کا غم بھی ابن آدم ہے
سیم و زر کی چاہت میں آنکھ میری پر نم ہے
شاعری بھی لاحاصل اور قلم بھی بد قسمت
نعتِ مصطفی جس نے پڑھی لی مرہم ہے
مَیں نے نعت گوئی کا جب سے ذوق پایا ہے
سر پہ میرے رحمت کا بے خودی کا عالم ہے
کوئی مانے نا مانے ہے یہی حقیقت اِک
عَرَقِ تن بھی ہے خوشبو گردِ راہ شبنم ہے
عطرو بوئے دنیا سے کیا غرض اُسے ہوگی
جانِ گلشن جنت کی جس کو مل گئی کم ہے
وشمہ غم نے گھیرا جب مجھ کو اے جہاں والو!
درد کی دوا پائی، دردِ بے دوا غم ہے