ہاتھ ملانے والا ہر شخص , اپنا تو نہی ہوتا نا
جو کھلی آنکھ سے دیکھیں, سپنہ تو نہی ہوتا نا
اس کا نشہ بھی یارو شراب جیسا ہے
اسکی گردن پہ جو آتا ہے, پسینہ تو نہیں ہوتا نا
بارش سے دوستی کرنی ہے تو زرا سوچ کے کر
اتنا بھی پائیدار ہمارا آشیانہ تو نہیں ہوتا نا
میں اب کہاں سوتا ہوں تیرے جانے کے بعد
مجھے ہر وقت میسر کسی کا شانہ تو نہیں ہوتا نا
وہ آتا تھا تو خزاں میں بھی پھول کھلتے تھے
اتنا سحر انگیز کسی اور کا آنا تو نہیں ہوتا نا
آسمان کو دیکھوں تو سوچتا ہوں اکثر
بغیر سہارے کے فرخ، شامیانہ تو نہیں ہوتا نا