کیوں نا آج اس کے شہر میں جایا جائے
مل بیٹھ کے رنجش کو مٹایا جائے
اس کے نینوں کے کاجل کو پوجا جائے
اس کی زلف کو ہتھیلی سے سہلایا جائے
اس کی قربت سے معطر کریں روح اپنی
اس کے لمس سے جسم کو گرمایا جائے
اس کے لبوں سے نکلتی شیرینی سے
غم دنیا سے پیچھا چھڑایا جائے
اس کی باہوں میں ڈالے اپنی باہیں
ان لمحات کو قیمتی بنایا جائے
اس کی مخمور آنکھوں میں ڈوب کر
شراب کا ایک دور چلایا جائے
اس کے مرمریں جسم کی تراش پر
غزل لکھی جائے، گیت سنایا جائے