Add Poetry

زمیں پہ آج یہ حُوروں کا کیوں ہجوم ہُوا

Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachi

زمیں پہ آج یہ حُوروں کا کیوں ہجوم ہُوا
اور ان کے ساتھ فرشتوں کا کیوں ہجوم ہُوا

کسی بزرگ ولی کا جنازہ ہے شاید
وگرنہ صحن میں پریوں کا کیوں ہجوم ہُوا

ہے رسمِ زُلف کشائی یا غُسل میت کا
میں سوچتا ہوں کہ اربوں کا کیوں ہجوم ہُوا

یہ قتل گاہ نہیں ہے یہ ملک ہے میرا
خُدارا روز یہ لاشوں کا کیوں ہجوم ہُوا

اِسی کا رِزق جو کھا کر اِسی کو کاٹتے ہیں
یہ میرے ملک میں کُتّوں کا کیوں ہجوم ہُوا

یُوں اعتبار نہ اُٹھ جاۓ دین سے ہی کہیں
یہ دن بدن نۓ فرقوں کا کیوں ہجوم ہُوا

تِرا اِشارا ہی کافی تھا میرے مرنے کو
یہ قتل گاہ یہ نیزوں کا کیوں ہجوم ہُوا

کوئی بھی غیر تماشائیوں میں تھا ہی نہیں
جو میں تھا دار پہ اپنوں کا کیوں ہجوم ہُوا

حیات تھا تو کوئی پُوچھتا نہ تھا مجھ کو
یہ میری لاش پہ لوگوں کا کیوں ہجوم ہُوا

کسی درندے کی پھر سے نظر نہ پڑ جاۓ
کنارے جھیل کے بچوں کا کیوں ہجوم ہُوا

بڑا ہی میں تو گنہگار شخص تھا بــــــــاقرؔ
مری لحد پہ پرندوں کا کیوں ہجوم ہُوا

Rate it:
Views: 304
21 Mar, 2017
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets