مرے خط کا آخر جواب آگیا
پیامی مرا کامیاب آگیا
مرے دیکھتے ہی نگاہ جھک گئی
اداوٗں کو ان کی حجاب آگیا
مرا حال رنگیں سنا‘ تو کہا
کہاں سے یہ طرز خطاب آگیا
یہ قسمت کی خوبی ہے یا اتفاق
کہ مجھ تک بھی دور شراب آگیا
مریضانِ دل پھر سے بڑھنے لگے
سنا ہے کہ ان پر شباب آگیا
وہ بے تاب تھے بہر جلوہ گری
کہاں بیچ میں یہ نقاب آگیا
بہت سو چکے شمس ؔ اب آنکھ کھولو
لب بام لو آفتاب آگیا