تم نے بے انتہا دیے تلخیوں کے تحفے
آؤ تمہارے تحفے تمہارے سامنے رکھتے ہے
بہت ہوئے اب سینے پے زخم میرے
آؤ اب لفظوں کے مرہم رکھتے ہے
تم خفاء ہو مجھ سے چلو خفاء ہی سہی
آؤ خوابوں میں لیکن دوستی رکھتے ہے
ہاں ! میری سوچیں ُجدائی سے بھی ڈرتی ہیں
آؤ سوچوں میں وصال رکھتے ہے
تلخیوں کے سہلاب نے توڑ دیے گھر سارے
آؤ محبت سے نئے گھر کی بنیاد رکھتے ہے
نیاء سال آ رہا ہیں آج ایک سال کے بعد لکی
آؤ کہ مل کر نئے سال میں قدم رکھتے ہے