آؤ گزری یادوں کو پهر سے جگایا جاۓ
بغیر وجه کے پهر سے مسکرایا جاۓ
لوگ کرتے هیں تماشه اس زمانے میں
آو انهیں لوگوں کو انگلی پے نچایا جاۓ
کھیل بچپن میں جو کھیلیں هیں مل کر هم نے
یه کھیل اب دوسروں کو بھی مل کر کھلایا جاۓ
لوگ جلتے هیں تو جل جائیں اب نهیں فکر کوئی
کیوں نا جلنے والوں کو اور جلایا جاۓ
جو اجڑ گیا تھا اک طوفاں سے میرے گھر کا آنگن
اسی آنگن کو نئی طرز سے بسایا جاۓ
وه جو روٹھے هیں کسی دور میں حافظ هم سے
هاتھ جوڑ کر ان کو بھی اب منایا جاۓ
چلو بنا وجه کے اب بهت مسکرایا جاۓ