آتی ہے تیری یاد لیکن کبھی کبھی
ہوتی ہے جواں دل کی دھڑکن کبھی کبھی
تصور میں ہم کہیں خوشبو میں بیٹھ کر
سجا لیتے ہیں تیری انجمن کبھی کبھی
تو نے مجھ کو بھلا دیا یہ میرا نصیب تھا
گل سے بھی جل جاتے ہیں گلشن کبھی کبھی
جب خوشیوں کے ساتھ تیرے غم کی بات ہو
لوٹ آتا ہے اپنی آنکھوں میں ساون کبھی کبھی
ہونٹوں پہ میرے لالی کا راز یہ ہوا
دیتے تھے مجھ کو بوسہ وہ گلبدن کبھی کبھی