آج کل میں دو مکانوں میں رہتا ہوں
ایک قیام محبت ہے دوسرا غمِ جدائی ہے
سوچا ہے کئی بار کیا تقاضا ہے زندگی کا
اک طرف بے رُخیاں اک طرف آشنائی ہے
پلٹ کے دیکھا آئینے کا رخ تو خیال آیا
چیز ایک ہے مگر کاریگر کی بے پروائی ہے
اپنی آرزو کے لئے چھوڑ دیا شہر اپنا
سکونِ قلب نہ ملا لیکن ملی رسوائی ہے
کیا کروں اب سمجھ میں نہیں آتا خالد
اک طرف سلسلے چاہت کے اک طرف بےوفائی ہے