آزمانے آئے گا بس دل جلانے آئے گا
میری شائد ہی سنے کچھ،بس سنانے آئے گا
کہہ گیا تھا، اب نہ آوں گا، کبھی ملنے تُجھے
جانتا ہوں آئے گا، گرچہ ستانے آئے گا
سو رہا ہوں تو جگا کر پوچھتا ہے، سو گئے؟
اور چھل اپنا ہے سونا، کہ جگانے آئے گا
اُس کو ازبر ہیں کئی قصے محبت کے مگر
وہ بھلا کر اپنی الفت کےفسانے آئے گا
ہو بھی لوں ناراض، لیکن کچھ تو مجھ کو آس ہو
رنجشیں ساری بھلا کر وہ منانے آئے گا
روز ملتا ہے نئے حیلے سے وہ اظہر تجھے
آج بھی جانے وہ کیسے، کس بہانے آئے گا