آنکھوں آنکھوں سے پوری کہانی سنائی میں نے
زبان نہ کھولی پر آنکھوں کی زبانی سنائی میں نے
ان کی ضد ہے کہ دل کی بات زباں پہ لاؤ
جب بھی وہ ملے اشکوں کی روانی سنائی میں نے
اور یوں ہوا کہ ان پہ اک غزل لکھ بیٹھااک دن
داد تو بہت ملی جب اپنی ہی نادانی سنائی میں نے
کسی نے پوچھا کہ محبت ملی تو کیسا لگا
ٹوٹے ہوے دل کی اک آس پرانی سنائی میں نے
دل پہ زخم دیکھ کے وجہ جو پوچھی کسی نے
کسی اپنے کی پیاری سی نشانی سنائی میں نے
اور وہ جو کہتے تھے کہ ہمیں کوئی نہیں رلا سکا آج تک
بہت روئے جب مجھ پہ بیتی دانی سنائی میں نے