اب فکر میکدہ ہے نہ شوق شراب ہے
آنکھوں میں بس گیا کوئی مست شباب ہے
رخ پر ہے گیسؤں کا جو عالم نہ پوچھئے
کالی گھٹا کی اوٹ میں اک ماہتاب ہے
نظریں جھکی جھکی سی یہ دیتی ہیں سو پیام
کوئی بتا ئے ہم کو یہ کیسا حجاب ہے
حسن و شباب تیرا یہ ناز و ادا تری
جو چیز دی خدا نے تجھے لا جواب ہے
کہہ دو حسن یہ ان سے کہ معصوم ہیں ابھی
نکلیں نہ یوں سنور کے زمانہ خراب ہے