آنکھوں میں کچھ عذاب تمہارے ٹھہرتے ہیں

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

آنکھوں میں کچھ عذاب تمہارے ٹھہرتے ہیں
اور فرار محبتوں کے شمارے ٹھہرتے ہیں

دیکھو ہواؤں کے رخ نے کون سا چمن اجاڑا
کہ آج ان کی ردا میں ستارے ٹھہرتے ہیں

تنہائی میں سمٹ کر سبھی آہٹیں سُلا کر
راتوں میں یوں چراغ ہمارے ٹھہرتے ہیں

ہر آنکھ کی ترغیب ہے اپنی اپنی مگر
آس پاس تو یوں کئی نظارے ٹھہرتے ہیں

بدمست ان موجوں سے بھی کیا ڈرنا
مگر ڈرکے بھی کچھ لوگ کنارے ٹھہرتے ہیں

کئی دنوں سے دل کا مکان خالی پڑا ہے
تو چلو سنتوشؔ آج گھر ہمارے ٹھہرتے ہیں

 

Rate it:
Views: 355
05 Feb, 2011