آنکھ کہہ دیتی ہے زباں سے پہلے
یقیں سا رہتا ہے گماں سے پہلے
کبھی اس کو پچھتانا نہیں پڑتا
سوچ لیتا ہے جو بیاں سے پہلے
اہل دانش اشاروں سے جان لیتے ہیں
سکوت سا رہتا ہے جو طوفاں سے پہلے
ہم محبت کو رسوا نہیں ہونے دیں گے
ڈوب جائیں گے تیرے نہاں سے پہلے
بہت مشکل ہوا پانا اب مہنت کا صلہ
گزرنا پڑتا ہے صاحب یہاں جاں سے پہلے
عشق نے کاشی ہمیں بے سروساماں کیا
جی رہے تھے وگرنہ کس شاں سے پہلے