آپ سے دور رہ کر خود کو شاد رکھتے ہیں
خود کو تھوڑا تھوڑا آباد رکھتے ہیں
ہمیں تو فرصت نہیں کہ کچھ اور بھی سوچیں
آپ کی یادوں میں ہی خود کو برباد رکھتے ہیں
آپ کی نفرت کا شاید اثر ہو ہی جاتا دل پر
مگر ہم دل کہاں سینے میں فولاد رکھتے ہیں
واپس تو میرے پاس آنا پڑے گا آپ کو
یہ یاد رکھنا جیسے ہم بھی یاد رکھتے ہیں