لگائی آگ کس نے اسطرح بے لاگ پانی میں
جدھر دیکھو نظر آتی ہے ہرسو آگ پانی میں
کرشمہ ہے کسی کے آتشیں رخسار کا شاید
لگائی اسطرح کس نے ہے آخر آگ پانی میں
ہیں زلفیں اُس پری وش کی نہ کھاؤ خوف تم ان سے
نظر آتے ہیں لہراتے ہوئے جو ناگ پانی میں
اِدھر بھی اشک آنکھوں میں اُدھر بھی اشک آنکھوں میں
اِدھر بھی آگ پانی میں اُدھر بھی آگ پانی میں
بھروسہ کچھ نہیں اس کا دغا دے جائے کب ہم کو
یوں سمجھو زندگی کو تم، کہ جیسے جھاگ پانی میں
ترنم ہو وہ جھرنوں کا کہ سرگوشی ہو لہروں کی
دلِ حساس نے یاسر سنے ہیں راگ پانی میں