آ کسی وحشت خانے میں چلتے ہیں
جو مجھ سِی ہو اور تُجھ میں ہو
ہو رنگین جنگل ، انسان کے اندر
تنہائیوں کا سماں بھی ہو
پرندوں کی طرح رہیں سفر جہاں میں
منزلوں سے عشق ہی اپنی پُونجی ہو
کہیں درخت ہوں فصلِ گُل کی مانند
کہیں آبشاروں کی تشنگی ہو
ہو آنکھوں میں آتش رمزِ جاں کی
انہیں میں بہاروں کی آرزو ہو
جو رُخ بدلے !:تو سیلاب ہو برپا
جو چپ رہے ! تو آندھیوں کی آمدیں ہو
ہاں ایسی ویسی ہی کوئ دھن میں
بارش ہو رقصاں اِس چمن میں
پھر ہریالی کی ضد ہو ہم کو
پھر رِستے زخموں کی کِسے پڑی ہو؟
نظر ہو یکتا ،سفر ہو گامزن
سفر بھی خوبصورت اور حسین ہو