ابھی احساس ہی پیدا ہوا ہے اپنی الفت کا
ابھی دل میں کوئی خاکہ انکی محبت کا
ابھی تک پردے پردے میں ہمارا ملنا جلنا ہے
ابھی دیکھا نہیں ہے حسن تک چہرے کی ندرت کا
وہ کالا برقعہ چہرے پہ جیسے چاند پر بادل
تمسخر کر رہا ہے حسن بھی پردہ کی ظلمت کا
ہر ایک شے یوں زمین و آسماں میں محو حیرت ہے
کہ کیسا معجزہ اسمیں ہے پنہاں رب کی قدرت کا
وہ ان کے حسن لاثانی کا یارب شکریہ لیکن
مجھے ہر سو رلاتا ہے وہ غم عاشق کی کثرت کا
مہذب سی پری نازک کلی ہے وہ دل جاناں
تصادم دل میں رہتا ہے سدا الفت و عظمت کا
بتا تو فلسفہ ہے معجزہ ہے حور ہے کیا ہے
دعا ہے یا دوا ہے یا خلاصہ میری قسمت کا
میں پروانہ ہوں تو شمع میں بھنورا تو کلی سی ہے
مجھے پھر خوف کیوں ہو تو بتا تہمت پہ تہمت کا
الہی وہ مجھے دیدے یا اسکو دور ہی کردے
کہیں میرا فسانہ بن نہ جائے درس عبرت کا
میری یہ شاعری ان پر اور انکا مسکرا دینا
بہانہ بن نہ جائے یار یہ فیصل کی شہرت کا