ابھی تو نیند سے جاگے ہیں ،اٹھانے والے
ہم غریبوں کو بھی جینے دے ستانے والے
ہم کو اڑنے سے فضاؤں میں نہ روکو صاحب!
ہم محبت کی صدا ئیں ہیں لگانے والے
ہم ہیں خوشبو تو ہمیں آج بسا لو خود میں
اب یہ ہونٹوں پہ دعا ہے تو ،بلانے والے
جانے کس حال میں رہتا ہے مرا جان سخن
اس کو دنیا کے خرابوں میں چھپا نے والے
میرے بھیجے ہوئے پھولوں کو نہ چھونا لیکن
میرے احساس کو کالر پہ سجا نے والے
تیرے دربار پہ آئے ہیں ،ہمیں دیکھ ذرا
اور اس در کی ہی وشمہ کو بھلانے والے