ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ
تمنا کے حسیں موسم
ابھی کچھ یاد میں بھر لوں
ستاروں سے بھری شامیں
امنگوں سے بھری صبحیں
یہ جگنو کہکشاں تارے
سبھی گرویدہ تمہارے
انہیہ ہمراہ تو کر لوں
ابھی میں جھولیاں بھر لوں
نہیں ملنا تو نہ ملنا
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ
تمہاری منزلیں ہیں اور
میرے راستے بے نام
نہیں تم سے کوئی شکوہ
نہ میری جاں شکایت ہے
حقیقت پھر حقیقت ہے
یہی رمز محبت ہے
تمنا کی حسیں یادیں
میرے ہمراہ رہنے دو
جہاں چاہو بھلے جانا
چلے جانا چلے جانا
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ
کہ میری زندگانی کو
یہ موسم پیارا لگتا ہے
نہیں میرا یہاں کچھ بھی
سبھی تمہارا لگتا ہے
یہ مانا عارضی ہے سب
سراب و خود فریبی ہے
اسے چاہے بھلا دینا
نگاہوں سے مٹا دینا
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ
ابھی کچھ تشنگی سی ہے
ابھی کچھ بے کلی سی ہے
ارادوں میں نہیں ہے دم
نشہ سا بے خودی سی ہے
نکل جائیں گے اس سے ہم
ملے گا وقت کا مرحم
سہیں گے ہجر کا موسم
یہ میرا بھی ارادہ ہے
میری اں میرا وعدہ ہے
مگر اے روح کے باسی
ابھی تک روح ہے پیاسی
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ