صنم تم بھی آ جاؤ نا کہ عید آئی ہے
مجھے سینے سے لگا جاؤ نا کہ عید آئی ہے
شہر کے شہر جگمگ کر رہے ہیں سارے
نصیب میرے بھی جگا جاؤ نا کہ عید آئی ہے
سہیلیوں کے ہاتھوں پہ مہندی کے پھول
مہندی مجھے بھی لگا جاؤ نا کہ عید آئی ہے
چوڑیوں کی کھنک میں ارمانوں کا شور
سُونی کلائیاں سجا جاؤ نا کہ عید آئی ہے
عید کے چاند نے کی تلخ کلامی مجھ سے
چپ اِسے تم کرا جاؤ نا کہ عید آئی ہے
چراغوں کو لوہ ہیں میرے چارو جانب
چراغ محبت کا جلا جاؤ نا کہ عید آئی ہے
کتنے سال گزرے تری جان کے اکیلے نہال
اب اکیلا پن مٹا جاؤ نا کہ عید آئی ہے