اب تیری یاد کو بھلائیں کیا
اس دل کو اور دکھائیں کیا
جو داغ دل کو دے چکے
انہیں زخم جگر دکھلائیں کیا
ہے ہواؤں کے دوش پر رواں
ہم قصہ جنوں سنائیں کیا
جو کرتے ہیں یار سرگوشیاں
ہم محفل سے اٹھ نا جائیں کیا
خود اپنے گریباں میں جھانک لو
یا آئینہ تم کو دکھلائیں کیا
بدنام ہوں اور نام نا ہو
اب اور تمہیں سمجھائیں کیا
حبیب طوفان تو اب گزر چکا
ساحل پہ اب اتر نا جائیں کیا