تو خود سر بازار لایا گھر کے معاملے
اب چاہتا ھے کوئی بھی تیرا نہ نام لے
میری سماعتوں میں تیرے نام کی ھے گونج
تو چاھے زیرلب ہی سہی میرا نام لے
نہ ہاتھ چھڑا دو ہی قدم رہ گئے باقی
منزل قریب آ گئ ہمت سے کام لے
اک لمحے کے لئے ہی خودی سے اتر کے دیکھ
تو خامشی سے آ کے میرا ہاتھ تھام لے
سرمایہ دار ہڈیاں غربت کی کھا گئے
میں چاہتا ہوں ان سے کوئی انتقام لے