اب کبھی ایسی کرامات نہ ہوگی شاید
تجھ سے اے یار ملاقات نہ ہوگی شاید
نیند آ جائے سکوں چین کی جس میں مجھ کو
ایسی کوئی بھی حسیں رات نہ ہوگی شاید
جل گیا گھر مرا افسوس نہیں ہے مجھ کو
میری قسمت میں ہی برسات نہ ہوگی شاید
سارے احسان بھلا دیتا ہے پل بھر میں میاں
آدمی جیسی کوئی ذات نہ ہوگی شاید
چند پیسوں کے لیے بیچ دیا ہے خود کو
اس سے بڑھ کر تری اوقات نہ ہوگی شاید
ہر ستم سہ کے بھی خاموش کھڑی ہے وشمہ
اس سے اعلیٰ تو کوئی بات نہ ہوگی شاید