قیامت کا کوئی حصہ رہا ہے
اجالے ڈوب جائےکیا رہا ہے
گرے گلیوں کے قدموں پر اندھیرا
فضا میں کوئی بھی جلتا رہا ہے
ہیں سطح بحر پر موجیں پریشاں
یہ جو دن ڈوبے تو پیاسا رہا ہے
ہزاروں رنگ پرچم سرنگوں ہیں
وہ ہم ہی تھے کہ جو اپنا رہا ہے
ہماری ابتدا مٹی میں اک راز
ہمارے واسطے قصہ رہا ہے
کہے کیا ہائے زخمِ دل ہمارا
تو ہم نے یاں نہ کچھ کھویا رہا ہے
کہیں ایسا نہ پائے گا نہ وشمہ
اسے ہم نے بہت ڈھونڈھا رہا ہے