میرے دِل نے دیکھا سپنا
سپنے میں دیکھا تُم کو اپنا
اپنا سمجھ اِک بات کہی
رگ رگ میں سمائی تیری ذات کہی
اپنا سب کُچھ تُم کو مانا
دِل و دِماغ پہ قابض جانا
دیکھ کے تیرا پھول سا چہرہ
نِکل گیا دِل ہاتھ سے میرا
تیری آنکھوں کا تیر چلا
جو میرے دِل کے پار نِکلا
چہرہ تیرا لگا شناسا
جیسے بچپن کا یار نِکلا
آدھی رات کے پار جا کے
آنکھ کھلی میری گھبرا کے
تیری یاد نے لِی پِھر ایسی جمائی
باقی کی رات پھر نیند نہ آئی
یاد تیری میں ہوا نِڈھال
جیسے کھو گیا ہو کوئی قیمتی لعل
تیری تصویر دِماغ پے چھَا گئی
تقدیر زہرِ جُدائی پِلا گئی
بڑے ہی دانا حکیموں سے پوچھا
جنگل کے اکیلے مکینوں سے پوچھا
تعبیرِ خواب کوئی بتا نہ سکا
میرے دِل کا غم کوئی مِٹا نہ سکا
اے کاش۔۔۔
اے کاش۔۔۔
اے کاش۔۔۔
اے کاش کوئی بتا دے اِس بُھولے بَھٹکے درؔاز کو
ایسے ادھورے خوابوں کی تعبیر مِلا نہیں کرتی۔