نگاہوں سے مستی کو وا کر رہے ہو
ارے میرے ساقی یہ کیا کر رہے ہو
نہیں جی بہلتا جو تیرا نہ بہلے
مجھے کیوں قفس سے رہا کر رہے ہو
میرے آنسوؤں سے یہ پوچھا کلی نے
یہ تم قرض کس کا ادا کر رہے ہو
ابھی تک وہی لاابالی ہو تم بھی
غم دل کو دل سے جدا کر رہے ہو
کسی آنیوالے سمے سے ڈرا کر
گھڑی پل کا جینا سزا کر رہے ہو
ہے کچے مکانوں پہ جو خستہ حالی
تو کیوں بارشوں کی دعا کر رہے ہو
ابھی دل رقیبوں کے چلا اٹھیں گے
جو اظہار یوں برملا کر رہے ہو
جگر تھامتا ہوں تو دل چیختا ہے
یہ کس درد کی تم دوا کر رہے ہو
چرا کر مری ذات کے سب معانی
مجھے حرف سے آشنا کر رہے ہو