اس دنیا کے دستور کا دستور نرالا ہے
اچھا ہے جو اپنا ہے گندا جو پرایا ہے
وہ چاندنی اور چاند میں دونوں کا حوالا ہے
وہ چاند نہیں لیکن وہ چاند کا حالا ہے
ہم عشق کے دربار میں جاتے ہیں بریدہ سر
یہ درجہ نہ مانگو تم یہ خواب سہانا ہے
بیگانوں کی بستی میں اپنا بھی تو ہو کوئی
ایسا ہے تو اپنا ہے چاہے وہ بیگانا ہے
اک عمر وہ تڑپا کر اب سمجھے ہے کون انکا
بیٹھے ہیں مرے سامنے کیا اچھا نظارا ہے
جو کچھ ترے ہاتھوں سے ساقی ملے عمدہ ہے
بس مے ہی نہیں مٹی کا جام بھی اچھا ہے