اس زمیں پر کوئی رسائی ہے
میرے ہمدم تو اب جدائی ہے
چشمِ افلاک دیکھتی ہے مجھے
نام تیرا ہی اب دبائی ہے
تیری یادیں ہی میرا مسکن ہیں
تیری خواہش ہی اک سمائی ہے
ڈوب جائے نہ یاد کا منظر
ایک تو ہی تو اب رسائی ہے
پہلے ویسے ہی تم پہ مرتی تھی
جوش و جزبہ تو اب دہائی ہے
تیری خواہش میں گر گئی ہوں یہاں
کیا کرے گا یہ اب برائی ہے
میرے دل کو وہ کر گیا گھائل
تیر یادوں کا جوشنائی ہے
میں جو نکلی چمن سے تب دیکھا
تری ہر طرف ہی جدائی ہے
موت آئے گی اب مجھے وشمہ
روح قبروں کی بھی سجائی ہے