اس زیست نے دیکھو نا یہ کیا موڑ لیا ہے
رشتہ تو خدا سے تھا ، کہاں جوڑ لیا ہے
چلتا ہے زباں پر جو سدا جھوٹ کا جادو
خوشبو نے تعفن کا کفن اوڑھ لیا ہے
دن بغض کا شہکار تو کینہ بھری راتیں
کیوں سب نے محبت سے ہی رخ موڑ لیا ہے
کیا فائدہ قبروں پہ دیئے جا کے جلائیں
جب دین سے اک عہد وفا توڑ لیا ہے
مت ڈھونڈ سمندر میں تو اب عکس محبت
ان درد کی آنکھوں میں دھواں چھوڑ لیا ہے
دکھ اپنے مقدر کے کسے جا کے سنائیں
وشمہ نے جدائی کا نیا موڑ لیا ہے