اس نے شاید مجھے سوچا ہو گا
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillوجد میں جھوم رہی ہیں فضائیں
اس نے زلفوں کو بکھیرا ہو گا
پھول کا رنگ کھلا ہے حیا سے
اس نے دھیرے سے کچھ کہا ہو گا
پرندے چہچہا اٹھے ہیں ہر سو
اس نے نغمہ کوئی چھیڑا ہو گا
دھڑکنیں بڑھ گئی ہیں سینے میں
اس نے قدموں کو بڑھایا ہو گا
آسماں پر گھٹائیں اٹھی ہیں
اس نے آنکھوں کو اٹھایا ہو گا
تتلیوں پر نشہ سا طاری ہے
اس نے یونہی ذرا چھوا ہو گا
سخن اترا رہا ہے شوخی میں
اس نے کاغذ پہ کچھ لکھا ہو گا
وقت ٹھہرا ہوا سا لگتا ہے
اس نے لمحات کو تھاما ہو گا
بادلوں نے پھوار پھینکی ہے
اس کا آنچل ذرا اڑا ہو گا
رقص جاری ہے پھول کلیوں کا
اس نے ہونٹوں کو ہلایا ہو گا
نظارے بن کے طائر اڑ رہے ہیں
اس نے سرشاری میں دیکھا ہو گا
حسن ہی حسن پھیلا جا رہا ہے
اسکے ہاتھوں میں آئینہ ہو گا
اسکے چہرے کی تاب نہ لا کر
چاند بادل میں چھپ گیا ہو گا
یہ جو بہکا ہوا سا موسم ہے
وہ کسی سوچ میں چلا ہو گا
سوچ میں بھر کے پھر خیال میرا
چلتے چلتے وہ رک گیا ہو گا
تھم گئی ہو گی وقت کی گردش
کیا ہوا ؟؟ لمحوں نے پوچھا ہو گا
اور پھر اس نے پریشانی میں
ٹھہرے لمحات سے کہا ہو گا
“مجھے جانا ہے ۔ ابھی جانا ہے“
“وہ بھری بزم میں تنہا ہو گا“
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






