اسکو مرے آنے کا پتہ ہے کہ نہیں ہے
پیغام مرا اس کو دیا ہے کہ نہیں ہے
کیسے یہ بنا یار کے کٹ زیست رہی ہے
آسان نہیں ہجر سزا ہے کہ نہیں ہے
لگ روگ گیا ہے یہ محبت کا بتاؤ
بیمار محبت کی دواہے کہ نہیں ہے
مت تولو ترازوں میں محبت کو ابھی تم
ایسے ہی بتا ؤ یہ وفا ہے کہ نہیں ہے
دن رات خیالوں میں مگن رہتا ہے جس کے
اب ملنے اسے یار گیا ہے کہ نہیں ہے
بے لوث محبت کی ہے مطلب کے بنا اب
نیکی کا یہ کیا کام جزا ہے کہ نہیں ہے
شہزاد محبت سے بلایا تھا تجھے گھر
تم آئے نہیں ہو یہ دغا ہے کہ نہیں ہے