آج بھی گھڑی جب شام کے سات بجاتی ہے
پھر مجھے ایک بچھڑے دوست کی یاد ستاتی ہے
میری نظر گھڑی کی سوئیوں پہ جم جاتی ہے
میرے لیے وقت کی رفتار تھم جاتی ہے
میں پرانی یادوں میں کھو جاتا ہوں
یہ سوچتے سوچتے اداس ہو جاتا ہوں
اس کی یادیں میرے ذہن سےجاتی نہیں
اور وہ مجھے بھول پاتی نہیں
شام کے سات بجتے ہی کسی کو حال دل سناتا تھا میں
اس کی جدائی میں کیسے دن بیتا اسے بتاتا تھا میں
آج بھی جب شام کے سات بجنے لگتے ہیں
میرے ہاتھ بےساختہ فون کی جانب بڑھنے لگتے ہیں
کیسے بتاؤں تیری جدائی میں تیرا دوست کتنا اداس ہے
جان سے پیارے دوست کیا تجھے اس بات کا احساس ہے
پھر سوچتا ہوں میرا حال سن کر کہیں وہ ادس نہ ہو جائے
میری روداد شاید اس کی روح کو اذیت پہنچائے
میں خود تو دکھ سہہ لوں گا
مگر اسے نا اداس ہونے دوں گا