اے دل میرے کاہے کو پریثاں ہوتا ہے
اُس کے ہوتے ہوئے بھلا کوئی ذیاں ہوتا ہے
سنا ہے ہو دل کے قریب تر جو بھی
دور رہ کے بھی پاس اس کا گماں ہوتا ہے
کیا بات چھیڑ دی تو نے غریب کے گھر کی
زمیں کا فرش چھت آسماں ہوتا ہے
اپنے گھر میں تو فقیر کی بھی ہو شاہی
پردیس میں تو شاہ بھی بے اماں ہوتا ہے
عشق کو کب چاہئے کہیں کوئی بام و در
دل کا یہ مکیں دل اس کا مکاں ہوتا ہے