مانا کہ نہیں مجھ میں سلیقہ گویائی تو نے بھی تو ہر بار اشارے نہیں سمجھے وہ ہیں سمندر سے سمندر نہیں ان سے اتنی سی فقط بات کنارے نہیں سمجھے پیغام محبت جو دیا میں نے غزل میں سمجھے میرے دشمن میرے پیارے نہیں سمجھے