اک بات ہمیشہ تنہائی میں تم سے کہنا چاہی تھی
اک خوف تھا لیکن انجانا
جو مجھ کو روک دیا کرتا
اس خوف کے مارے تم سے
میں وہ بات کبھی کہہ بھی نہ سکا
اس خدشے اس اندیشے نے
ہر بار مجھے مایوس کیا
وہ بات میں اپنے ہونٹوں تک
لایا بھی کبھی تو کہہ نہ سکا
شائد کے میری وہ بات تمہیں
اچھی بھی لگے اور نہ بھی لگے
شائد کے میری اس جرات پر
تم مجھ سے خفا بھی ہوجاؤ
اس اندیشے کے پیش نظر
وہ بات زباں تک آکر بھی
الفاظ کی صورت ڈھل نہ سکی
جذبات مگر دبتے کب تک
یہ زخم سہے جاتے کب تک
جذبات کی بپھری موجوں نے
اس کچے بند کو توڑ دیا
جرات کے دلاسے پر میں نے
اس خوف کا دامن چھوڑ دیا
اور میں نے اپنے ہونٹوں سے
وہ چپ کا بندھن توڑ دیا