نقش ہے اپنے خانہ ء دل میں وہ البیلی شام
جیون کی جب ساری گھڑیاں کی تھیں اُن کے نام
ایک سے بڑھ کر ایک حسیں ہے دنیا میں گلفام
لیکن یاروں ہم کو اپنے من موہن سے کام
نام جہاں میں دل والوں کا اس کارن بدنام
اُن کو دکھ میں راحت ہے اور وحشت میں آرام
جب تک عشق میں کھو بیٹھے نہ اپنا نام مقام
اس رستے میں خود کوسمجھے نا پختہ اور خام
ناصح ہم کو سمجھانے میں خوب ہوئے ناکام
اُن پر اپنا تن من وارا بھول کے سب انجام