زود و پشیماں ہوے ہم الفت کے امتحاں میں
زیرِ نظر رہی درخو ا ست اپنی ہم کو سند کہاں ملی
قرطاس بھی انکے سوال و جواب بھی انکے
زورِ قلم سےلکھنے کی ہم کو رخصت کہاں ملی
درسِ الفت میں ہم نے درد کی اک داستاں لکھی
اُس بے ادب کو پڑھنے کی فرصت کہاں ملی
الفت میں قدم جو پھسلے تو گرتے ہی چلے گئے
محبت میں اسکی ہم کو سنبھلنے کی جا کہاں ملی
بے خانماں ہوئے جس کی خاطر وہ بےخبر ہی رہے
ٹوٹی جہاں کمند اپنی ہم کو وہاں امان کہاں ملی