الھڑپن میں کیا عشق اب انتہا نہیں ہوتی
اس حال غنیمت ہی کی شفا نہیں ہوتی
بے تعمل کی فطرت بھی دقیق ہوتی ہے
کبھی خود کے ہی پہلو میں پناہ نہیں ملتی
سرکشی یا مدہوشی تم کچھ بھی کہو لیکن
مۂ پیار سے مدھ نہ ہو وہ نشا نہیں کرتی
یہ دل کا قصور کہ بڑے بھاپ رکھتے ہیں
فضیلت کی نگاہ تو اتنی خطا نہیں کرتی
ان کی چوکھٹ سے آج بھی مایوس لوٹے
آخر کیوں یہ بے رخی سخا نہیں کرتی
وقت کی قضا کہتی ہے موت تک جیء لو
سنتوشؔ خود زندگی بھی ہمیشہ وفا نہیں کرتی