انی چبھتی ہے سر میرے انا تکلیف دیتی ہے
سہوں میں کب تلک میرے خدا تکلیف دتیی ہے
طبیعت ناروا سی ہوچکی ہے یا خدایا یوں
کہ اب اپنے ہی اندر کی صدا تکلیف دیتی ہے
نجانے کونسی نسبت ہے اس موسم کی زخموں سے
شجر پہ بور آتے ہی ہوا تکلیف دیتی ہے
مرا ملنا محبت میں تکف سے ذرا ہٹ کے
مرے کچھ دوستوں کو یہ ادا تکلیف دیتی ہے
مرے اندر اندھیرا ہے مرے اندر ہے ویرانی
کہ یہ وحشت ،یہ ویرانی، بلا تکلیف دیتی ہے
ہزاروں زخم-غم سرمد مری جاں کو میسر ہیں
دعا کرنا،کہ اب مجھ کو دوا تکلیف دیتی ہے